یہ کسی بڑے جانور کا تعاقب کرتے ہیں۔ شکار کا تعاقب کرتے وقت بھیڑیوں کی رفتار دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ زبان باہر نکالے پوری قوت سے دوڑتے ہیںا ور جب تک شکار نڈھال ہوکر گر نہیں پڑتا اس وقت تک اس کا پپچھا نہیں چھوڑتے
بھیڑئیے کا شمار کراہ ارض پر پائے جانے والے قدیم ترین جانوروں میں ہوتاہے۔ ماہرین حیوانات کے مطابق یہ دراصل جنگلی کتا ہے جو صحراؤں اور جنگلوں میں رہنے کے باعث قدوقامت کے لحاظ سے بڑا ہوگیا ہے۔ دنیا کی قدیم ترین لوک کہانیوں میں بھیڑیے کا ذکر جابجا موجود ہے اور اسے ہر جگہ مکاری‘ چالاکی اور درندگی کے روپ میں پیش کیا گیا ہےگویا اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان ابتدا سے ہی بھیڑیے کو اپنادشمن سمجھتا اور اس سے خوف کھاتا چلا آتا ہے۔ اس کی خون آشامی اور وحشت کے بے شمار قصے ہرزبان میں مل جائیں گے۔ اگرچہ اب جدید علم سائنس کی رو سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ بھیڑیا اتنا موذی اور خونخوار نہیں جتنا کہ مشہور ہے۔ وہ خود آدمی سے ڈرتا ہے اور اس پر خواہ مخواہ حملہ نہیں کرتا بلکہ محض اپنے بچاؤ اور حفاظت کیلئے حملہ کرتا ہے۔
ایسے شخص نے جو پولینڈ اور روس میں پائے جانے والے بھیڑیوں کی فطرت کا خاصا گہرا مطالعہ کرچکا تھا‘ ایک مرتبہ بتایا کہ برفانی علاقوں میں جبکہ بہت سے لوگ پھسلنے والے تختوں پر سفر کرتے ہیں‘ ان کے بارے میں کبھی یہ نہیں سنا گیا کہ بھیڑیوں نے ان پر حملہ کیا ہو۔ البتہ یہ دیکھا ہے کہ دس دس‘ بیس بیس بھیڑیوں کے گروہ ان مسافروں کا تعاقب ضرور کرتے ہیں لیکن انہیں ہلاک کرنے کی نیت سے نہیں بلکہ محض اس لالچ میں کہ جب یہ مسافر کہیں قیام کرکے روانہ ہوں گے تو پیچھے بچی کھچی خوراک بھیڑیوں کو مل جائے گی۔
بھیڑیا‘ یورپ‘ امریکہ‘ افریقہ اور ایشیا کے براعظموں میں عام طور پر پایا جاتا ہے۔ براعظم انٹار کٹیکا میں سفید رنگ کا بھیڑیا ملتا ہے۔ ان کی شکل و صورت‘ رنگ اور قدو قامت میں بھی نمایاں فرق ہوتا ہے۔ دم سمیت اس کا قد پانچ فٹ سے لے کر سات فٹ تک دیکھا گیا ہے۔ مادہ بھیڑیا‘ نر کے مقابلے میں کسی قدر چھوٹی ہوتی ہے۔ بھیڑیے کی کھال نرم‘ بالوں سے بھری بھری اور کسی قدر سیاہ مائل بھوری ہوتی ہے لیکن اس رنگ کے علاوہ بالکل سیاہ‘ سرخ‘ خاکی اور سفید بھیڑیے بھی ملتے ہیں۔ یہ اپنے سے دوگنی قوت کے حیوان کو آسانی سے شکار کرلیتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بھیڑیا بارہ سنگھے‘ ہرن اور گھوڑے کو بھی مار گراتا ہے۔ اس کے دانت نہایت لمبے اور نوکیلے ہوتے ہیں۔ جن کی مدد سے یہ آناً فاناً اپنے شکار کی بوٹیاں کرڈالتا ہے۔ بھیڑیا اکیلا باہر نہیں نکلتا بلکہ دس دس‘ پندرہ پندرہ کے گروہ کی شکل میں شکار کو نکلتے ہیں اور پھر یہ کسی بڑے جانور کا تعاقب کرتے ہیں۔ شکار کا تعاقب کرتے وقت بھیڑیوں کی رفتار دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ زبان باہر نکالے پوری قوت سے دوڑتے ہیں اور جب تک شکار نڈھال ہوکر گر نہیں پڑتا اس وقت تک اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔
یہ بات صحیح ہے کہ بھیڑیے آپس میں ایک دوسرے کو ہڑپ کرجاتے ہیں لیکن یہ حادثہ اس صورت میں پیش آتا ہے کہ انہیں تلاش کے باوجود غذا نہ ملے یا بارش اور برف باری کے باعث وہ کسی غار میں قید ہوجائیں۔۔۔۔ تب وہ بھوک سے تنگ آکر ایک دوسرے پر حملہ کردیتے ہیں۔ چنانچہ کمزور بھیڑیوں کو طاقتور بھیڑیے کھاجاتے ہیں۔
بھیڑیا تین اور چار سال کی عمر میں بالغ ہوجاتا ہے اورجب نر بھیڑیا ایک مرتبہ جس مادہ کو پسند کرلے‘ تمام زندگی اسی کےساتھ بسر کرتا ہے اور کسی دوسرے بھیڑیے کو اس کے نزدیک آنے نہیں دیتا۔ دسمبر اور اپریل کےدرمیانی عرصے میں مادہ بھیڑیا بچے دیتی ہے۔ حمل قرار پانے کے 63دن بعد بچے پیدا ہوتے ہیں جن کی تعداد بیک وقت چار سے چودہ تک ہوتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ’’خاندان‘‘ میں شریک تمام بھیڑیے ان ننھے منے بچوں کی حفاظت کرتے ہیں۔
شکاریوں کے تجربات ومشاہدات کے مطابق بھیڑیے وسیع وعریض علاقے میں گھومنے کے عادی ہوتے ہیں۔ وہ بعض اوقات دن میں پچاس پچاس میل کا چکر آسانی سے لگالیتے ہیں۔ جن راستوں سے وہ ایک بار گزر جائیں انہیں کبھی نہیں بھولتے۔ عموماً وہ اپنے بھٹوں سے رات کے وقت نکلتے ہیں اور چاندنی راتوںمیں تو اکثر ان کے گروہ ساری ساری رات پھرتے رہتے ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں